قطب شاہی دور حکومت کی اہم مثنویاں اور مثنوی نگار

: *قطب شاہی حکومت*
         بہمنی بادشاہ سلطان محمود کے زمانے (1482  ء  _1518ء) میں بہمنی سلطنت بالآخر ختم ہوئی اور اس سے پانچ نئ ریاستیں وجود میں آئیں محمود شاہ بہمنی کے انتقال کے بعد 1518ء میں سلطان قلی قطب شاہ نے خود مختاری کا اعلان کیا اور ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جو کم و بیش ایک سو اسی سال تک سر زمین دکن پر قائم رہی سلطان قلی قطب شاہ نے گولکنڈہ کو اپنا پایہ تخت بنایا یہ سلطنت قطب شاہی کے نام سے مشہور ہوئی اس سلطنت میں یکے بعد دیگرے آٹھ حکم راں ہوئے جن کی فہرست زمانےاور ترتیب کے لحاظ سے مندرجہ ذیل ہے سلطان قلی قطب شاہ (پہلا حکم راں بانئ سلطنت) 1518ء سے 1543ء تک۔ جمشید قطب شاہ 1543ء سے 1550ء تک۔ سبحان قلی قطب شاہ اور ابراہیم قلی قطب شاہ 1550ء سے 1580ء تک۔ محمد قلی قطب شاہ 1580ء سے 1611ء تک۔ سلطان محمد قطب شاہ 1611ء سے 1626ء تک۔ عبد اللہ قطب شاہ 1626ء سے 1672ء تک۔ ابو الحسن تانا شاہ (آخری بادشاہ) 1672ء سے 1687ء تک ۔قطب شاہی حکومت کا آخری بادشاہ ابو الحسن تانا شاہ ہے جس کا انتقال دولت آباد قلعے میں 1700ء میں ہوا گولکنڈہ کے پہلے چار بادشاہ سلطان قلی ،جمشید قلی ،سبحان قلی ،اور ابراہیم قلی کے عہدوں میں ادب کو کچھ زیادہ فروغ نہیں ملا اگرچہ یہ حکم ران شعر و ادب کے دلدادہ تھے ان کا زیادہ تر وقت جنگ و جدل اور اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے میں گزر گیا ہمارا موضوع "قطب شاہی عہد کی اہم مثنویاں اور ان کے مثنوی نگار" ہے لہذا زیادہ تفصیل میں نہ جاکر صرف عنوان کے تحت ہی گفتگو کریں گے
*مثنوی کی تعریف اور ہیئت*
           مثنوی لفظ مثنّٰی سے ماخوذ ہے جس کے معنی دو ۔دو کے ہیں ادبی اصطلاح میں  مثنوی ایسی شعری صنف کو کہتے ہیں جس میں ہر شعر کے دونوں  مصرعے ہم قافیہ اور ہم وزن ہوں اور ہر شعر کا قافیہ پچھلے شعر کے قافیہ سے مختلف ہو  یہ صنف اپنے مخصوص موضوعات ،مزاج اور مخصوص ہیئت کی بنا پر پہچانی جاتی ہے اس کا حقیقی مزاج داستانی ہے گویا کہ مثنوی ایک طرح کی منظوم داستان ہوتی ہے جو ما فوق الفطرت اور عشق کے جذبات و واقعات پر مبنی ہو  اپنی اسی صفت کی وجہ سے مثنوی بیانیہ شاعری کی معراج تصور کی جاتی ہے اس لحاظ سے اردو زبان میں مثنوی ایک مقبول و معروف صنف سخن کی حیثیت رکھتی ہے  اس کی مقبولیت کے پیشِ نظر پچھلے زمانے میں  بہت سی عمدہ مثنویاں لکھی گئیں جو اردو شعرو ادب کا مایۂ ناز سرمایہ ہیں اردو میں مثنوی کی روایت فارسی سے آئی
*اردو کی پہلی مثنوی "کدم راؤ پدم راؤ*
         دکن میں اردو مثنوی کا با ضابطہ آغاز بہمنی عہد سے ہوتا ہے اس عہد کی سب سے قدیم دستیاب مثنوی نظامی بیدری کی "کدم راو پدم راو" ہے یہ مثنوی اردو کی پہلی دریافت شدہ ادبی تصنیف ہے جو احمد شاہ ولی بہمنی کے دور میں لکھی گئ قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ مثنوی بیدر میں لکھی گئ تھی  اس کا مصنف فخر دین ہے جس کا تخلص نظامی تھا یہ مثنوی مکمل حاصل نہیں ہوئی ناقص الاوسط ہے اور کم از کم دو تین صفحات اخیر کے بھی کم ہیں اور کچھ شروعاتی صفحات بھی غائب ہیں مثنوی کا اصل نام بھی معلوم نہیں ہو سکا اس لئے مثنوی کا نام قصے کے دو کرداروں کے نام پر "کدم راو پدم راو" رکھ دیا گیا ہے کدم راو راجہ اور پدم راو وزیر کا نام ہے جو اس مثنوی کے اہم کردار ہیں یہ مثنوی 1421ء سے 1434ء یا 1431ء سے 1435ء کے درمیان لکھی گئ یہ مثنوی نہ صرف اردو کی پہلی مثنوی ہونے کے اعتبار سے درجہ امتیاز رکھتی ہے بلکہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس کے مطالعے سے اس دور کے رسم و رواج ،تہذیب و معاشرت ،اخلاق و آداب ،خیالات و تصورات ،توہمات و اعتقادات پر بھی روشنی پڑتی ہے اس مثنوی کی فضا خالصۃ ہندوستانی ہے مصنف کے طرز فکر و احساس پر ہندوستانی رنگ غالب ہے  نظامی نے جہاں ہندو تلمیحات کا استعمال کیا ہے وہاں اسلامی تعلیمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے قصے کو دلچسپ بنانے کیلئے ما فوق الفطرت عناصر کا سہارا لیا ہے اس میں روز مرہ ،محاورات اور کہاوتوں کا استعمال بڑی فن کاری سے کیا ہے داستاں سرائی میں جگہ جگہ پند و موعظت کے موتی بھی بکھیر دیے گئے ہیں ما حصل یہ کہ یہ مثنوی اردو ادب کی پہلی شاہ کار ہے  
*قطب شاہی دور کی اہم مثنویاں اور ان کے مثنوی نگار*
*وجہی*
         وجہی کے حالات زندگی بہت کم معلوم ہیں البتہ جو معلوم ہو سکا وہ مندرج ہے۔ وجہی کا نام ملا اسد اللہ وجہی ہے یہ قطب شاہی دور کا پروردہ تھا ابراہیم قطب شاہ کے زمانے میں 1550ء سے 1580ء کے درمیان پیدا ہوا اس دور میں گولکنڈہ کی ادبی روایت کے ابتدائی نقوش ہموار ہو چکے تھے ملا خیالی ، فیروز اور محمود کے نغمے گونج رہے تھے وجہی کی مشق شعر و سخن ابراہیم قطب شاہ کے دور میں شروع ہوئی ذہانت و فطانت کے بل بوتے پر جلد ہی مشاق شاعر بن گیا یہ اردو شاعری کے ساتھ ساتھ فارسی کا شاعر بھی تھا اور اردو نثر میں بھی اچھی مہارت رکھتا تھا ۔وجہی کی قسمت کا ستارہ محمد قلی قطب شاہ کے دور میں چمکا محمد قلی قطب شاہ کے دور (1580ء تا 1611ء) میں یہ ملک الشعرا بن گیا مثنوی قطب مشتری میں اپنا تخلص وجیہی اور سب رس میں وجہی لکھا ہے اس کا تخلص وجہی وجیہی اور وجیہہ ملتا ہے وجہی شاعری کی اس روایت سے تعلق رکھتا ہے جو محمود اور فیروز کے فورا بعد ابھری وجہی کے محمد قلی قطب شاہ سے گہرے تعلق تھے ہمیشہ محمد قلی قطب شاہ کے پاس ہی رہتا تھا ساتھ ساتھ شراب نوشی کرتا تھا محمد قلی قطب شاہ کے انتقال کے بعد وجہی کی زندگی میں مصیبتیں آگئیں محمد قطب شاہ کے عہد (1611ء تا 1626ء) میں شراب ،شاعری اور ناچ گانا سب بند ہوجاتا ہے وجہی کو دربار سے نکال دیا جاتا ہے چودھا سال کا عرصہ وجہی کے لئے نہایت ہی دشواری اور تنگ دستی میں گزرتا ہے عبد اللہ قطب شاہ کے عہد میں جب شعر و شاعری کا بول بالا ہوا وجہی پھر سے دربار کے قریب ہوجاتا ہے وجہی نے "قطب مشتری" "سب رس" کچھ غزلیں اور فارسی میں "دوجیہہ" جیسی ادبیات یادگار چھوڑیں ابن نشاطی نے 1655ء میں پھول بن لکھی جس میں ان اساتذہ کا ذکر کیا جو وفات پا چکے تھے لیکن پھول بن میں وجہی کا نام کہیں نہیں ملتا جب طبعی 1677ء میں "بہرام و گل اندام" لکھتا ہے تو وہ وجہی کو اسی طرح خواب میں دیکھتا ہے جس طرح وجہی نے فیروز کو خواب میں دیکھا تھا اور اس کے کلام کی داد دی تھی اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وجہی 1655ء کے بعد اور 1677ء سے پہلے وفات پا چکا تھا پروفیسر زور نے وجہی کا سال وفات 1659ء کے قریب متعین کیا ہے  
*غواصی*
         غواصی کا نام ملا غواصی ہے یہ گولکنڈہ کا باشندہ ،عبد اللہ قطب شاہ کا ہم عصر اور اس کا درباری شاعر تھا غواصی کی درست تاریخ پیدائش کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ڈاکٹر زور نے اتنا لکھا ہے کہ غواصی ابراہیم قطب شاہ کے دور میں 1572ء سے 1580ء کے درمیان پیدا ہوا اس لحاظ سے اس نے محمد قلی قطب شاہ کے زمانے میں شاعری کی شروعات کی ہوگی غواصی قطب شاہی خاندان کا سپاہی تھا رات کے وقت پہرے پر معمور رہتا تھا  غواصی اس نوکری سے چھٹکارا پانے کیلئے بادشاہ کو خط لکھتا ہے اور بادشاہ اسے نوکری سے آزاد کردیتا ہے شعر و شاعری میں مہارت کی وجہ سے بادشاہ اسے ملک الشعرا کے لقب سے نوازتا ہے اور اپنا درباری شاعر بنا دیتا ہے در اصل عبد اللہ قطب شاہ سے پہلے محمد قطب شاہ کے دور میں شعر و شاعری کو بند کرادیا جاتا ہے غواصی اس درمیان اپنی قابلیت کا لوہا نہیں منوا سکا لیکن وہ اس دور میں خاموشی کے ساتھ مینا ستونتی لکھتا ہے اور مکمل کر لیتا ہے اس وقت غواصی کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب اپنی مثنوی مینا ستونتی کو اہل فن کے درمیان پیش کرتا ہے تو نہایت ہی عجز و انکساری کے ساتھ پیش کرتا ہے اور اس پر داد بھی چاہتا ہے لیکن جب عبد اللہ قطب شاہ کا زمانہ آتا ہے تو غواصی کے دن شروع ہوجاتے ہیں اور وہ عبد اللہ قطب شاہ کی خدمت میں "سیف الملوک و بدیع الجمال" پیش کرتا ہے جسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے غواصی اپنی اعلی درجے کی شاعری کی بنا پر بیجاپور سفیر بناکر بھیجا جاتا ہے جہاں وہ اپنی قابلیت اور صاحب کمالی کا مظاہرہ کرتا ہے وہاں کے بڑے بڑے شاعر ملک الشعرا ملا نصرتی اور مقیمی نے اپنی اپنی کتابوں میں غواصی کی قابلیت کا ذکر کیا ہے غواصی نے اپنی شاعری میں پانچ تخلص پیش کئے ہیں
1 غواصی     2غواصی واوبالتشدید    3غواص   4غواص واو بالتشدید     5 غواصیا
غواصی کی وفات پر بھی پیدائش کی طرح تاریکی چھائی ہوئی ہےغواصی نے تین مثنویاں مینا ستونتی ۔سیف الملوک و بدیع الجمال ۔طوطی نامہ ایک دیوان اور کچھ غزلیں بھی لکھیں ہیں
*مینا ستونتی*
         مینا ستونتی غواصی کی پہلی مثنوی ہے اسے "چندا اور لورک" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے مینا ستونتی کا مرکزی خیال عصمت حیا اور عفت ہیں جنھیں کہانی کے روپ میں انسانی کرداروں کی زندگی میں دکھایا گیا ہے مثنوی کی ابتدا حسب دستور حمد و نعت وغیرہ سے ہوتی ہے یہ مثنوی محمد قطب شاہ کے عہد (1612ء1624ء) میں لکھی محمد قطب شاہ کے عہد کی ادبی روایت کے پس منظر میں لکھی گئ اس کے شعری اسلوب پر مقامی ہندوی روایت کا غلبہ نظر آتا ہے اور شاعر اسلوب میں مطمئن نظر آتا ہے مینا ستونتی ہندوستانی الاصل قصہ ہے جو ساتویں صدی ہجری میں ایک عوامی کہانی کی حیثیت سے مقبول تھا اسے داود نے قدیم بھاشا میں فیروز شاہ تغلق کے عہد میں لکھا میاں سادھن نے "میناست" میں موضوع سخن بنایا دولت قاضی نے بنگالی زبان میں سترھویں صدی کے اوائل میں "ستی مینا و لور چندرانی" کے نام سے اور حمیدی نے فارسی میں 1607ء میں"عصمت نامہ" کے نام سے اپنے طور سے لکھا سارے دکنی قصوں کی طرح اس مثنوی کی بھی یہ خصوصیت ہے کہ فارسی قصے کو سامنے رکھ کر اس سے ترجمہ اخذ کرنے کے با وجود غواصی نے اسے دکنی مزاج اور رنگ و روپ میں ڈھال لیا ہے پڑھتے وقت محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ قصہ فارسی سے اردو میں آیا ہے قصے کے کردار 
ہندو ہونے کے باوجود روح مزا ج معاشرت اور انداز فکر میں مسلمان ہیں
*مینا ستونتی کا مختصر خلاصہ*
         بالا کنور بادشاہ کی خوبصورت بیٹی چندا ایک نوجوان چرواہے لورک پر عاشق ہوجاتی ہے لورک شادی شدہ ہے اس کی حسین و جمیل بیوی کا نام مینا ہے لورک مینا سے بہت محبت کرتا ہے چندا لورک کو پاس بلاکر فریب دیتی ہے اور بہت سارا مال و دولت لیکر اس کے ساتھ فرار ہوجاتی ہے چندا کا باپ بادشاہ بالا کنور غصے میں آجاتا ہے  جب چرواہے کی بیوی مینا کے حسن و جمال کا حال سنتا ہے تو ایک کٹنی کو مینا کے گھر بھیجتا ہے  کٹنی جاتی ہے اور بہلانے پھسلانے لگتی ہے لیکن مینا اپنی عصمت کا لحاظ رکھتی ہے اور بہکاوے میں نہیں آتی ہے بلکہ اس کٹنی کو اپنے مطلب کی حکایتیں اور نصیحتیں سنانے لگتی ہے  ہار کھاکر کٹنی بادشاہ کے پاس جاتی ہے اور سارا معاملہ سنادیتی ہے بادشاہ کٹنی کو پھر بھیجتا ہے اور پیچھے سے خود بھی مینا کے گھر کی طرف چل دیتا ہے بادشاہ جب چھپ کر مینا اور کٹنی کی باتیں سنتا ہے تو اتنا متاثر ہوتا ہے کہ سامنے آکر مینا کو داد دیتا ہے بعدہ چندا اور لورک کو پکڑنے کا حکم دیتا ہے  جب دونوں بادشاہ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں تو چندا کو سنگسار کرنے کا حکم دیتا ہے اور لورک کو مینا کے پاس بھجوا دیتا ہے اور کٹنی کا  سرمنڈواکر گدھے پر بٹھا کر سارے شہر میں پھرواتا ہےاس مثنوی میں عورت کی پاک دامنی کا اظہار کیا گیا ہے
: *قطب مشتری*
         وجہی کی قطب مشتری اہم مثنویوں میں شمار ہوتی ہے یہ مثنوی 1609ء میں مکمل ہوئی اس میں سلطان محمد قلی قطب شاہ اور مشتری کے عشق کا قصہ بیان کیا گیا ہے محمد قلی قطب شاہ کا کردار حقیقی ہے مگر سلطان سے جو قصہ منسوب ہے وہ محض وجہی کا خیالی ہے یہ مثنوی اردو کی قدیم مثنویوں میں سے ایک ہے اگر نظامی کی کدم راو پدم راو ،احمد گجراتی کی یوسف زلیخا اور عبدل کے ابراہیم نامہ کو سامنے رکھ کر قطب مشتری کا مطالعہ کیا جائے تو زبان و بیان کے اعتبار سے یہ مثنوی زیادہ نکھری ہوئی اور جدید اسلوب کی روایت سے زیادہ قریب نظر آتی ہے کہا جاتا ہے کہ بادشاہ تخت نشین ہونے سے پہلے ہی بھاگ متی نام کی لڑکی پر عاشق تھا جب تخت نشین ہوا بھاگ متی کو محل میں لاکر اس سے شادی کرلی اور اسے مشتری نام سے نوازا پھر مشتری کو حیدر محل خطاب عطا کیا اور اس کے نام سے حیدر آباد شہر کو وجود بخشا وجہی نے انھی سب معاملات کو داستان کا رنگ دیکر مثنوی کا موضوع بنایا ہے ممکن ہے کہ محمد قلی قطب شاہ نے وجہی کے سامنے خواہش ظاہر کی ہو کہ وجہی اس کے عشق کی کہانی کو ایک مثنوی کی شکل دے تاکہ اس کا عشق ابدی ہوجائے مشتری رقاصہ تھی مگر وجہی مشتری کو رقاصہ نہیں دکھا سکتا تھا کیونکہ وہ سلطان کی محبوبہ تھی وہ بھاگ متی سے مشتری بن گئ اور پھر اسے حیدر محل کا خطاب ملا اتنا ہی نہیں بادشاہ نے اس کے نام پر ایک شہر تک بسا دیا تو ممکن ہے اسی لئے وجہی نے مثنوی میں مشتری کو بنگالہ کی شہزادی کے روپ میں اتارا  ہو۔ مثنوی قطب مشتری میں کرداروں کے نام آسمانی سیاروں کے نام پر ہیں یعنی قطب ،مشتری ،زہرہ ،مریخ اور عطارد وغیرہ
*قطب مشتری کا مختصر خلاصہ*
       ابراہیم قطب شاہ کے یہاں خوبصورت بیٹا پیدا ہوا جوان ہوا تو خواب میں پری رخ لڑکی کو دیکھ کر عاشق ہو گیا جذبہ عشق میں گریہ و زاری کرنے لگتا ہے  جب بادشاہ کو شہزادے کا حال پتہ چلا تو کئ شہروں کی خوبصورت دوشیزائیں حاضر کردیں لیکن شہزادے نے کسی ایک کو بھی پھوٹی آنکھ نہ دیکھا بادشاہ نے عطارد کو طلب کیا عطارد نے بتایا دنیا کی حسین ترین لڑکی بنگالہ میں ہے جس کی بہن زہرہ ہے عطارد اس لڑکی کی تصویر نکالتا ہے تو شہزادہ اسے دیکھ کر مچل اٹھتا ہے کہتا ہے میرے خوابوں کی شہزادی یہی ہے۔ بہر کیف شہزادہ اور عطارد اسے پانے کی غرض سے سوداگر کے روپ میں سفر پر نکل پڑتے ہیں راستے میں شہزادے کو طرح طرح کی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے آخر کار یہ دونوں پریوں کے علاقے قلعہ گلستان میں پہنچ جاتے ہیںیہاں مہتاب پری شہزادے پر عاشق ہوجاتی ہے شہزادہ یہاں ٹھہر جاتا ہے اور عطارد بنگالہ جانے کی اجازت لے کر بنگالہ پہنچتا ہے اور وہاں مصوری شروع کردیتا ہے مصوری کی شہرت جب محل میں پہنچتی ہے تو شہزادی مشتری عطارد کو محل میں بلواتی ہے اور محل کو آراستہ کرنے کا حکم دے دیتی ہے عطارد محنت و لگن سے محل کو اس طرح آراستہ کرتا ہے کہ جب مشتری دیکھتی ہے دنگ رہ جاتی ہے اتنے میں اس کی نظر ایک خوب صورت نو جوان کی تصویر پر پڑتی ہے پوچھتی ہے یہ کس کی تصویر ہے ؟عطارد جواب دیتا ہے کہ یہ شہزادہ قطب شاہ کی تصویر ہے اور اس پر ایک پری عاشق ہوگئ ہےمشتری رونے لگتی ہے اور کہتی ہے یہی میرے خوابوں کا شہزادہ ہے۔عطارد تسلی دیتا ہے اور شہزادے کو وہیں بلواتا ہے قطب شاہ مہتاب پری سے اجازت لیتا ہے مہتاب پری بطور نشانی "ترنگ بادیا" دے کر روانہ کردیتی ہے قطب شاہ بنگالہ پہنچ کر مشتری سے ملتا ہے اور اسے اپنے ساتھ لیکر واپس آجاتا ہےقطب مشتری کا ہیرو شہزادہ قطب شاہ ہے وہ داستانی شہزادوں کی طرح فعالیت سے عاری ہے وہ ہمہ وقت کسی سہارے کا محتاج رہتا ہے عطارد کا کردار اسے فاعل بناتا ہے حقیقت میں عطارد اس کے لئے قطبی ستارہ ہے جس کی روشنی اور اشارے پر یہ سفر کرتا ہےاس مثنوی کی اہم خصوصیت ربط و روانی ہےمثنوی میں فنکارانہ شعور کا احساس ہوتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ شاعر لکھنے سے پہلے جانتا تھا کہ اسے
کیا کیسے اور کتنا لکھنا ہے
 *سیف الملوک و بدیع الجمال*
           یہ مثنوی بزبان دکھنی لکھی ہے اس میں شہزادہ مصر سیف الملوک اور شہزادی چین بدیع الجمال کی عشقیہ داستان ہے قصہ سیف الملوک و بدیع الجمال غالبا الف لیلہ سے ماخوذ ہے شروع میں حمد و نعت اور منقبت کے بعد بادشاہ کی تعریف ہےیہ مثنوی محمد قطب شاہ کے زمانہ حیات میں لکھی گئ محمد قطب شاہ کے انتقال کے بعد جب عبد اللہ قطب شاہ بادشاہ بنا تو غواصی نے محمد قطب شاہ کی تعریف میں لکھے گئے اشعار مثنوی سے ہٹادئے اور عبد اللہ قطب شاہ کی تعریف میں اشعار لکھ کر شامل کردئیے اور مثنوی کو نوجوان بادشاہ عبد اللہ قطب شاہ کی خدمت میں پیش کردیا غواصی نے یہ مثنوی صرف تیس دن میں لکھی سیف الملوک و بدیع الجمال کو الف لیلہ سے اخذ کیا گیا ہے اور غواصی نے اسے اپنے انداز میں نظم کا جامہ پہنایا ہے سیف الملوک و بدیع الجمال ایک عشقیہ مثنوی ہے اس مثنوی کی پہلی خصوصیت سادگی ہے اس کا قصہ "الف الف لیلہ" میں بادشاہ محمد بن سبائک اور تاجر حسن کے تحت بیان کیا گیا ہےسیف الملوک و بدیع الجمال کا قصہ اور کردار وہی ہیں جو الف لیلہ میں ملتے ہیں  غواصی نے اس مثنوی میں کہیں کہیں تبدیلی بھی کی ہے غواصی مثنوی کے عنوان "در حسب حال گوید" کے تحت بیان کرتا ہے کہ ایک دن علی الصباح وہ گلشن میں سیر و تفریح کر رہا تھا تو اس کے دل میں کوئی یادگاری کام کرنے کا خیال پیدا ہوا اسی وقت اس کے کان میں غیب سے آواز آئی کہ اس پر فیض و اثر کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں اب وقت ہے کہ وہ سیف الملوک و بدیع الجمال کی ایک مثالی قصہ عشق منظوم کرے اپنی اس فکر کے بعد غواصی نے مثنوی کو لکھنا شروع کردیایہ مثنوی
 1624ۓء میں تصنیف ہوئی۔
*طوطی نامہ*
           طوطی نامہ عبد اللہ قطب شاہ کے عہد 1639ء میں مکمل ہوئی یہ مثنوی ضیاء الدین نخشبی کی نثری تصنیف 1339ء طوطی نامہ سے ماخوذ ہے طوطی نامہ کا اصل ماخذ سنسکرت زبان کی کتاب " شکا سب تتی" ہے جس میں طوطے کی زبان سے ستر کہانیاں کہلوائی گئ ہیں لیکن غواصی نے صرف پینتالیس کہانیوں کو اپنی طوطی نامہ کا موضوع بنایا ہے اس مثنوی میں 4155 اشعار ہیں لیکن مثنوی کے اختتامی حصے میں غواصی نے صرف چار ہزار اشعار کا ذکر کیا ہے  طوطی نامہ میں انواع و اقسام کے قصے اور کہانیاں بیان کی گئی ہیں  غواصی نے اس مثنوی میں عورت کی فطرت اور مکر و فریب کے بارے میں بہت سے اشعار کہے ہیں اس مثنوی میں وضع وضع کی باتیں اور طرح طرح کی حکایتیں بیان ہوئی ہیں اس لئے یہ داستان نہیں بوستان ہے یعنی یہ ایک مسلسل قصے کے بجائے مختلف حکایات پر مشتمل ہے غواصی اس مثنوی کو ایسی برقع پوش عورت سے تشبیہ دیتا ہے جس کا ایک ہاتھ انسان کے خون میں ڈوبا ہوا ہے اور دوسرا ہاتھ مہندی سے رچا ہوا ہے وہ ایک ہاتھ سے لوگوں کو مارتی ہے اور دوسرے ہاتھ سے جلاتی ہےطوطی نامہ میں سارا زور اخلاقی قدر پر ہے مختلف حکایات پر تصوف کا رنگ بھی غالب آگیا ہےطوطی نامہ غواصی کے آخری دور کی تصنیف ہے جب وہ بوڑھا ہو چکا تھا اور فارغ البالی کی زندگی گزار رہا تھاطوطی نامہ میں وہ قناعت پسندی دنیا سے کنارہ کشی اور عشق الہی اور بحر معرفت میں غواصی کرنے خواب گراں سے بیدار ہونے کا درس دیتا ہےدکنی کی وہ چھاپ جو سیف الملوک و بدیع الجمال اور مینا ستونتی میں نظر آتی ہے طوطی نامہ میں ہلکی پڑ جاتی ہےفارسی اسلوب و آہنگ کا رنگ گہرا پڑ جاتا ہے  اس بنیادی تبدیلی سے خود اس دور کی زبان کی تبدیلی کا پتہ چلتا ہے کہ دکنی ریختہ کے نئے معیار کی طرف بڑھ رہی ہےزبان کی اس تبدیلی اور فارسی الفاظ و اسلوب کی وجہ سے طوطی نامہ آج بھی دونوں مثنویوں کے مقابلے دلچسپی سے پڑھا جا سکتا ہےطوطی نامہ میں بیان کی تیزی اور احساس و خیال کو گرفت میں لاکر لفظوں کے ذریعے بیان کرنے کی قدرت بھی بڑھ گئ ہےرنگوں کی شوخی اور کم ہوگئ ہےسلاست و روانی نے طرز ادا کی سطح پر ایک نئ روح پھونک دی ہےیہاں غواصی وہ غواصی نہیں جو دوسری مثنویوں میں نظر آتا ہے
*ابن نشاطی*
          اس زمانے کے شعرائے دکن میں ابن نشاطی بہت مشہور شاعر تھا گولکنڈہ کے رہنے والے سلطان عبداللہ قطب شاہ کا درباری شاعر تھا ابن نشاطی کے حالات زندگی کے بارے میں کوئی نہیں جانتا اتنا ضرور ہے کہ اس کا نام شیخ محمد مظہر الدین ،تخلص ابن نشاطی اور والد کا نام شیخ فخر الدین تھا جو غالبا ابن نشاطی کی طرح ممتاز شاعر تھے جو نشاطی تخلص رکھتے تھے جس وجہ سے فرزند نے ابن نشاطی تخلص رکھا۔ ابن نشاطی شاعر کے ساتھ ساتھ ایک با کمال ادیب اور نثر نگار بھی تھا اس کی ایک تصنیف سامنے آئی ہے جس کا نام "پھول بن"ہے مثنوی کے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں ابن نشاطی انشاء پرداز تھا ابن نشاطی ابتداء میںگولکنڈہ کے دربار سے وابستہ نہیں تھا مثنوی لکھنے کے بعد اسے درباری تقرب حاصل ہواابن نشاطی کے دل میں شاہی سرپرستی کی جو حسرت تھی وہ مثنوی کی تکمیل کے بعد پوری ہوجاتی ہے جب اس کے فن کی شہرت ہوتی ہے اور شاہی دربار کی طرف سے 
اس کی خوب عزت افزائی ہوتی ہے
*پھول بن*
         یہ مثنوی زبان دکنی میں ہے اور عشق و عاشقی کا قصہ ہے اس کا نام اس کی ہیروئن کے نام پر رکھا گیا ہے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مثنوی فارسی کتاب "بساتین الانس" کا ترجمہ ہے اس میں سکندر وغیرہ کی حکایات بھی بیان کی گئ ہیں اور ایک فرضی مشہور شہر "کنچن پٹن" کا حال بھی ہے اس کا ایک قلمی نسخہ تقریبا 130 صفحات کا ایسٹ انڈیا ہاوس کے کتب خانہ میں محفوظ ہے مثنوی کی ابتدا معمولا حمد و نعت و منقبت سے ہوئی ہے  قصے میں انسانوں کے قالب بدلنے اور جانوروں کے قالب میں آجانے کا ذکر ہے ابن نشاطی نے فارسی کی بساتین الانس کو سامنے رکھ کر پھول بن نام کی یہ مثنوی 1655ء میں دکنی میں نظم کی جب یہ مثنوی لکھی گئ اس وقت ابن نشاطی بادشاہ کے درباریوں میں شامل نہیں تھا پھر بھی اس نے عبد اللہ قطب شاہ کی مدح میں 38 اشعار لکھے یہ مثنوی 1744 اشعار پر مشتمل ہے مثنوی کو قصہ در قصہ بیان کیا گیا ہے مثنوی کی زبان بہت صاف ہے مثنوی میں لفظی و
 معنوی خوبیاں (صنائع و بدائع) کا استعمال بہت ہوا ہے ساری کی ساری مثنوی مرصع  ہے
 *طبعی*
          گولکنڈہ کے رہنے والے ابو الحسن تانا شاہ کے پیر بھائی اور سلطان عبداللہ قطب شاہ کے ہم عصر تھے گولکنڈہ کے دوسرے مثنوی نگاروں کی طرح طبعی کی بھی تاریخ پیدائش و تاریخ وفات کسی کو معلوم نہیں حالات زندگی کے بارے میں بھی کوئی زیادہ نہیں جانتایہ سلطان عبد اللہ قطب شاہ کے آخری دور کا شاعر ہے اس کی ایک مثنوی "بہرام و گل اندام" ہے مثنوی کےامور سے پتہ چلتا ہے کہ طبعی خاص دکھنی شاعر تھا دکھنی شاعر ہی نہیں بلند پایہ مصنف بھی تھا جب طبعی سلطان ابوالحسن تانا شاہ کا درباری شاعر ہوا تو جگہ جگہ اپنے بادشاہ کی تعریف کرتا نظر آتا ہے
*بہرام و گل اندام*
اس مثنوی کا مضمون نظامی کی ہفت پیکر سے ماخوذ ہے دیباچہ شاہ راجو حسینی کے نام سے ہے راجو حسینی گولکنڈہ کے ایک بہت بڑے بزرگ اور اولیاءاللہ سے تھے اور خاتمہ پر ابوالحسن تانا شاہ کی تعریف ہے یہ مثنوی تقریبا تیرہ چودھا سو اشعار پر مشتمل ہے مثنوی میں اس نے اپنے مرشد شاہ راجو حسینی اور بادشاہ وقت ابوالحسن کی مدح میں اشعار کہے ہیں یہ مثنوی 1340 اشعار پر مشتمل ہے یہ مثنوی چالیس دن کے عرصے میں 1670ء میں مکمل ہوئی ابوالحسن تانا شاہ 1672ء میں تخت نشین ہوا تو ہو سکتا ہے طبعی نے بادشاہ کی شان میں اشعار کا اضافہ کرکے مثنوی کو بادشاہ کی خدمت میں پیش کردیا ہو یا پھر اپنے پیر کی پیشین گوئی کے پیش نظر کہ ابوالحسن بادشاہ ہوگا اس لئے 1670ء میں جب یہ مثنوی لکھی تو اسے شاہ دکن کہہ کر ہی مخاطب کیا ہو طبعی نے اپنی مثنوی کی بنیاد فارسی شاعر نظامی کی مثنوی "ہفت پیکر" پر رکھی ہے اس مثنوی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ زبان ریختہ سے 
قریب ہوگئ ہے اس وجہ سے اسے آج بھی آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے



شعبئہ اردو ،اسکول آف ہیوما نٹیز
یونی ور سٹی آف حیدرآباد،حیدرآباد،تلنگانہ

Popular Posts