طلبہ کی رخصت طلبی اور اساتذہ کا کدار
(اس سے بہتر مضمون آپ نے اب تک نہیں پڑھا ہوگا)
ششماہی امتحان اول ہو یا ثانی اس میں طلبہ کی شرکت درسی حاضریوں کی مطلوبہ تعداد پر موقوف رہتی ہے
اگر مطلوبہ حاضری پوری ہے تو طلبہ امتحان دے سکیں گے ورنہ نہیں
بس اتنی ہی بات سے واضح ہے کہ چھٹی کے معاملے میں طلبہ آزاد ہیں اس میں اساتذہ کی دخل اندازی زیادتی ہے
ایام حاضری کی تعداد کے سلسلے میں مختلف مدارس کا جداگانہ نظام ہے
اکثر بڑے مدارس طلبہ کی تقریباً پچہتر فی صد درسی حاضری کو امتحان میں شرکت کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں
جنھیں کم بڑھ لگتی ہے وہ ستر یا اسی فی صد کر لیتے ہیں یا مزید گھٹا بڑھا سکتے ہیں
عمومی طور پر کسی بھی ششماہی میں ایام تعلیم تین ماہ سے زائد ہیں
اگر تعلیمی ایام کی مجموعی تعداد سو مان کر چلیں تو پچہتر فی صد کا صاف مطلب پچہتر دن ہوتا ہے
یعنی ہر ششماہی میں پچیس دن کی رخصت طلبہ کی جھولی میں بے روک ٹوک پڑی ہوئی ہونی چاہیے
یہ وہ چھٹیاں ہیں جنھیں اہل مدارس طلبہ کے لیے خود مقرر کرتے ہیں
ان چند جملوں کا ما حصل یہ ہے کہ سال میں کم از کم یا زیادہ سے زیادہ طلبہ کو کتنی حاضریاں دینی ہیں یا کتنی رخصتیں لینی ہیں یہ سب پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے
اس کے با وجود طلبہ کے ساتھ اساتذہ کا برتاؤ انفرادی طور پر جداگانہ رہتا ہے جو غلط ہے
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر سال سینکڑوں طلبہ چھٹیاں نہ ملنے کے سبب یا تاخیر سے ملنے کے سبب مدارس چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں
بس اسی سلسلے میں اساتذہ کے لیے چند باتیں ہیں اگر دیانت داری سے مضمون پڑھیں گے تو ضرور غور کریں گے
*دھیان دیں*
*نمبر_ایک*
چھٹی دینے میں طلبہ کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کیا جائے
کچھ کے ساتھ لگاتار، کچھ کے ساتھ کبھی کبھار تو کچھ کے ساتھ کبھی نہیں والا فارمولا نہیں اپنانا چاہیے
*نمبر_دو*
طلبہ سے رخصت لینے کی معقول وجہ نہ پوچھی جائے
حاضری فی صد کا اصول نافذ ہے اگر طلبہ کے حصے کی چھٹیاں باقی ہیں تو وہ بے وجہ بھی رخصت طلب کر سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں
اساتذہ زبردستی جائز وجہ پوچھ کر طلبہ کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ نا جائز وجہ بتائیں
اور پھر دادی جان کا انتقال ہو گیا یا دادا جان حج کو جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ جھوٹ بول کر چھٹیاں لی جاتی ہیں
*نمبر_تین*
اساتذہ لازماً ہی طلبہ کی رخصت قبول کریں
حاضری فی صد کو مد نظر رکھتے ہوئے کس طالب علم کو کتنی چھٹیاں کرنی ہیں یا کتنی حاضریاں دینی ہیں یہ یاد رکھنا خود طالب علم کی ذمے داری ہے
اساتذہ بے روک ٹوک رخصت قبول کریں، رجسٹر میں حاضری یا غیر حاضری درج کریں باقی فکر اپنے سر نہ لیں
*نمبر_چار*
بر وقت چھٹی دیں
طلبہ جب چھٹی طلب کریں انھیں اسی وقت چھٹی دی جائے
کیونکہ در اصل وہ چھٹی مانگ نہیں رہے ہیں بلکہ ان کی جھولی میں جو پچیس چھٹیاں پڑی ہوئی ہیں انھیں استعمال کرنے کی اطلاع دے رہے ہیں
یعنی رخصت کا مطلب رخصت کی طلب نہیں رخصت کی اطلاع ہے اور اطلاع کبھی بھی کسی بھی حال میں دی جا سکتی ہے
اکثر اساتذہ طلبہ کو کئ کئ بار ٹالتے رہتے ہیں نہایت ضروری امور میں بھی طلبہ کو پریشان کیا جاتا ہے کبھی درس کے بعد آنے کو کہا جاتا ہے، شام میں روم پر بلایا جاتا ہے اور پھر صبح ترانے سے پہلے رخصت دینے کا وعدہ کرکے واپس کر دیا جاتا ہے
یہ ظلم ہے
طالب علم اپنا حق مانگ رہا ہے اور آپ اپنے استاد ہونے کا غلط فایدہ اٹھا رہے ہیں
اس بیچ بہت سے طلبہ جنھیں کسی قریب کے جنازے میں شریک ہونا تھا یا بھائی بہن کی شادی میں شرکت کرنی تھی اساتذہ کی ٹال مٹول کے چکر میں رہ جاتے ہیں تاخیر سے جاتے بھی ہیں تو بس با دل نا خواستہ
اس طرح کے برتاؤ طلبہ کو مدرسے سے یا اہل مدارس سے ذہنی طور پر باغی بنا دیتے ہیں
کبھی کبھار بے حد پریشان ہوکر وہ مدرسہ چھوڑ دیتے ہیں جس کا غلط انجام طلبہ، ادارہ اور منتظمین ادارہ سب کو بھگتنا پڑتا ہے
*نمبر_پانچ*
طلبہ کو ان کے مطلوبہ ایام تک رخصت دیں
طلبہ کے جذبات سے نہ کھیلیں
بہار ،بنگال یا اڑیسہ کے رہنے والے طلبہ کو اگر یو پی کے کسی مدرسے سے چار دن کی چھٹی دی جائے گی تو یہ ان کے ساتھ کھلا مذاق ہوگا
ایک دو روز سفر میں ہی گزر جاتے ہیں اس صورت میں طلبہ کی واپسی تاخیر کے ساتھ ہوتی ہے اور پھر طلبہ جان بوجھ کر کرائی گئی غلطی کی سزا جھیل رہے ہوتے ہیں
*نمبر_چھ*
طلبہ سے میڈیکل سرٹیفکیٹ ہرگز نہ مانگیں
رخصت پر گیا طالب علم اگر تاخیر سے واپس آئے اور کسی بیماری یا چوٹ کا عذر پیش کرے تو اس سے میڈیکل سرٹیفکیٹ دریافت نہ کیا جائے بلکہ اتنے ہی ایام غیر حاضری میں درج کرلیں اور بس
اس سے یہ فایدہ ہوگا کہ طلبہ پہلے ہی بے وجہ چھٹیاں کرنے سے باز رہیں گے
یہاں زیادتی یہ ہو جاتی ہے کہ بسا اوقات طالب علم کی شکل بتا رہی ہوتی ہے یہ بندہ گھر جاکر مزید بیمار ہو گیا تھا
یا اس کے ہاتھ پاؤں میں لگا چوٹ کا تازہ نشان گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ طالب علم گزشتہ ایام میں معذور رہا ہے
اس کے باوجود اس کی پژمردہ شکل پر یا جسم کے زخم پر میڈیکل سرٹیفکیٹ کو ترجیح دی جاتی ہے جو کئ لحاظ سے درست نہیں
اولاً
حاضری فی صد اصول کے ہوتے میڈیکل سرٹیفکیٹ کی طلب لغو ہے
ثانیاً
چوٹ کے ثبوت میں طالب علم کے بدن پر نظر آنے والی چوٹ بڑی دلیل ہے چوٹ کا کاغذی سرٹیفکیٹ بڑی دلیل نہیں
ثالثاً
میڈیکل سرٹیفکیٹ کی عدم موجودگی میں اہل مدارس طلبہ پر زور ڈالتے ہیں جس کے نتیجے میں اکثر دیکھا گیا ہے طلبہ ڈاکٹر کو رشوت دے کر جھوٹا سرٹیفکیٹ بنوانے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں
اس کا گناہ اساتذہ تک پہنچتا ہے
رابعاً
میڈیکل سرٹیفکیٹ کسی سرکاری دفتر میں جمع نہیں کیا جاتا بلکہ اہل مدارس اپنی تسلی قلب کے لیے طلب کرتے ہیں لہذا چوٹ دیکھ کر ہی تسلی کر لینی چاہیے دنیوی ڈراما کرنے سے کوئی فایدہ نہیں جھوٹا سرٹیفکیٹ بنواکر طلبہ اور اساتذہ دونوں گنہگار ہوتے ہیں
*نمبر_سات*
اضافی حاضری پر طلبہ کو انعامات سے نوازا جائے
مطلوبہ حاضری سے کم حاضر رہنے والے طلبہ کو یقیناً امتحان سے روکا جائے تاکہ طلبہ کی بے راہ روی پر لگام کسی رہے
لیکن ساتھ ہی مطلوبہ حاضری سے زیادہ حاضر رہنے والے طلبہ کو مناسب انعام سے نوازا جائے تاکہ طلبہ میں حاضر رہنے کی رغبت بڑھے
اس مضمون پر مجھ سے سوالات کر سکتے ہیں تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کروں گا
ہاں یہ بھی ممکن ہے کچھ پہلوؤں سے رجوع کرنا پڑے.